’اب جلد ہی پرانی شکل میں واپس آجاؤ۔ جیسے پہلے تھی ویسی ہی بن جاؤ۔‘ یہ فقرے بہت سی خواتین کو ڈیلیوری کے بعد کئی بار سننے پڑتے ہیں۔ حمل کے دوران اور اور پیدائش کے بعد عورت کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں۔ چاہے وہ جسمانی ہوں یا ذہنی۔
2012 میں پہلی بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد رشتہ داروں نے شریا سنگھ (فرضی نام) سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’زیادہ مت کھاؤ، تمہارا وزن بڑھ جائے گا۔‘
بچے کی پیدائش کے بعد ان کا وزن ان کے حمل سے پہلے کے وزن سے 25 کلو زیادہ تھا۔
شریا دو بچوں کی ماں ہیں۔ ان کی پہلی بیٹی 2012 میں اور دوسری بیٹی 2021 میں پیدا ہوئی۔ دونوں کی ڈیلیوری نارمل تھی۔
’زیادہ نہ کھاؤ، وزن بڑھ جائے گا‘
’زیادہ نہ کھاؤ، وزن بڑھ جائے گا‘
بی بی سی کی نامہ نگار پائل بھویان سے بات کرتے ہوئے شریا بتاتی ہیں کہ ان کی پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد وہ جسمانی طور پر کئی مسائل سے دوچار تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ مجھے ایسے دیکھتے تو سوچتے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔ ڈیلیوری کے وقت مجھے ’تھرڈ ڈگری ویجائنل ٹیئر‘ تھا جس کو ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگا۔ اس دوران مجھے فشور کے مسئلے سے بھی گزرنا پڑا۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ میری حالت ایسی ہو گئی تھی کہ میں باتھ روم جانے کا سوچ کر بھی کانپنے لگتی تھی۔‘
اس سب کے ساتھ ساتھ شریا کو کمر کے نچلے حصے میں بھی بہت درد تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس سب سے لڑتے ہوئے جب لوگ کہتے تھے کہ ’زیادہ مت کھاؤ، وزن کم کرو‘ تو کئی بار سمجھ نہیں آتی کہ اس پر کیا کہوں۔
تاہم شریا کو اپنی دوسری بیٹی کی پیدائش میں اتنی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا کہ پہلی بیٹی کی پیدائش کے دوران کرنا پڑا تھا۔ دوسری بار وہ ذہنی طور پر زیادہ تیار تھی۔
جسمانی اور ذہنی مسائل کا سامنا
جسمانی اور ذہنی مسائل کا سامنا
لیکن اگر ڈلیوری کے بعد عورت کو یہ تمام مسائل نہ ہوں تب بھی حمل کے دوران اور بعد میں جسم میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ بہت سی ہارمونل تبدیلیوں سے گزرتے ہیں جو آپ کا جسم چربی کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے کرتا ہے۔
آپ کے پیلوک فلور میں کھچاؤ ہوتا ہے، دودھ پلانے والی خواتین کے جسم سے غذائی اجزا دودھ کے ذریعے بچے تک پہنچتے ہیں۔ ان تمام باتوں کا مطلب ہے کہ کسی بھی خاتون کو ڈیلیوری کے بعد مکمل طور پر صحت مند ہونے میں وقت لگتا ہے۔
بی بی سی کی نامہ نگار پائل بھویان سے بات کرتے ہوئے دلی سے ملحقہ نوئیڈا کے مدر ہڈ ہسپتال کی ماہر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر کرنیکا تیواری کہتی ہیں کہ حمل کے دوران اور ڈلیوری کے بعد بہت سے مسائل ہوتے ہیں جن کا سامنا بہت سی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’حمل کے دوران، بڑھتے ہوئے جنین کی جگہ بنانے کے لیے مثانے پر دباؤ پڑتا ہے۔ پیشاب کا مثانہ بچہ دانی کے سامنے ہوتا ہے اور آنتیں اس کے پیچھے ہوتی ہیں۔ بہت سے معاملات میں جب مثانے پر مزید دباؤ پڑتا ہے تو پیشاب پر قابو نہیں رہتا اور بعض اوقات بواسیر بھی ہو سکتی ہے۔
’اس کے ساتھ ہی جب بچہ دانی کے پیچھے آنتوں پر دباؤ ہو تو یا تو تیزابیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے یا پھر قبض کی شکایت ہو سکتی ہے۔‘
ڈاکٹر کرنیکا تیواری کا مزید کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد بچہ دانی کو اپنے نارمل سائز میں واپس آنے میں چھ سے آٹھ ہفتے لگتے ہیں۔ اس دوران بعض اوقات پیٹ میں درد بھی ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین میں توانائی بہت کم ہوتی ہے اور وہ بہت جلد تھکاوٹ محسوس کرنے لگتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ حمل کے دوران جسم میں ہڈیوں کی پوزیشن بدل جاتی ہے۔ ڈیلیوری کے بعد ہڈیاں آہستہ آہستہ اپنی جگہ پر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سی خواتین کمر درد کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ بہت سے معاملات میں، یہ مسئلہ زندگی بھر رہ سکتا ہے۔
’اوہ واہ! تم پہلے جیسی نظر آنے لگی ہو‘
’اوہ واہ! تم پہلے جیسی نظر آنے لگی ہو‘
بی بی سی فیوچر سے بات کرتے ہوئے، برطانیہ کے یارکشائر میں رہنے والے شیرون اوکلے بتاتی ہیں کہ 2018 میں ’میری ڈیلیوری کے بعد، لوگوں نے مجھے چند مہینوں میں بتانا شروع کر دیا۔ اوہ واہ! تم پہلے جیسی نظر آنے لگی ہو۔‘
اگرچہ بظاہر شیرون ایسے لگتی تھیں جیسے وہ پہلے والی جسمانی حالت میں واپس آ گئی ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ بچے کی پیدائش کے بعد ان کا وزن کم ہو گیا تھا لیکن جسمانی طور پر وہ بہت مشکل مرحلے سے گزر رہی تھیں۔
شیرون اپنے بیٹے کے ساتھ ڈلیوری کے صرف چھ ماہ بعد سٹرولر میں جاگنگ کے لیے جاتی تھی۔ لیکن اس عرصے میں ان کا پیشاب نکلنے کا مسئلہ (پیشاب پر قابو نہ ہونا) بڑھ گیا۔
شیرون کہتی ہیں کہ ’یہ ہمارے معاشرے کی ذہنیت کا ایک بہت ہی عجیب حصہ ہے، جہاں ہم عورت کے پوسٹ مارٹم کی مدت کا اندازہ اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ کیسا محسوس کرتی ہے، بجائے اس کے کہ وہ کیسی دکھتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بظاہر میں ٹھیک لگ رہی تھی لیکن میں اب بھی ان چوٹوں یا تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوں جو میرے جسم میں ڈیلیوری کے بعد ہوئی ہیں۔
کئی مہینوں کے ٹیسٹ اور طبی مشورے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ ڈیلیوری کے بعد شیرون کے پیلوک فلور کے پٹھے بہت کمزور ہو گئے تھے اور وہ اپنی نارمل جگہ پر نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے انھیں مثانے کے لیک ہونے کا مسئلہ درپیش تھا۔
اب پانچ سال بعد وہ بہتر ہے۔ لیکن اب بھی بعض اوقات انھیں پیشاب کے اخراج کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے ساتھ اضافی زیر جامہ رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی بار انھوں نے نوکری چھوڑنے کا بھی سوچا۔
کھل کر بات نہ کرو
اگر ان مسائل پر کھل کر بات نہ کی جائے تو بھی شریا اور شیرون جیسی کہانیاں ہمارے آس پاس آسانی سے مل جائیں گی۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ خواتین جو اس طرح کے مسائل کا شکار ہوں انھیں ڈیلیوری کے بعد کوئی علامات ظاہر ہوں۔ لیکن 90 فیصد خواتین میں ڈیلیوری کے بعد پیلوک کے پٹھے کمزور ہو جانے کا شکار ہوتی ہیں۔
جبکہ ایک تہائی خواتین کو پیشاب کی بے ضابطگی یعنی پیشاب پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ پیلوک حصے میں تناؤ، کسی پٹھوں میں چوٹ، اعصاب میں چوٹ بھی ہو سکتی ہے۔
جبکہ ڈائیسٹاسس ریکٹائی یعنی پیٹ کا الگ ہونا 60 فیصد خواتین میں دیکھا جاتا ہے۔ اس حالت میں، حمل کے دوران، پیٹ کے پٹھے بڑھتے ہوئے جنین کے لیے جگہ بنانے کے لیے پھیلتے اور الگ ہوجاتے ہیں، اور بعد میں وہ اپنی جگہ پر واپس نہیں آسکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ڈلیوری کے بعد عورت کا معدہ زیادہ دیر تک باہر کی طرف رہتا ہے اور اسے چلنے پھرنے اور بھاری چیزیں اٹھانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حمل سے پہلے جسمانی دباؤ
بی بی سی کی نامہ نگار پائل بھویان سے بات کرتے ہوئے، فورٹس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ، دہلی کی سینیئر کلینیکل اینڈ چائلڈ سائیکالوجسٹ ڈاکٹر بھاونا برمی کہتی ہیں کہ نئی ماں کی جلد پہلے جیسی ہونے کی امید رکھنا ان کی ذہنی صحت پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے۔
عورت پر منفی جذباتی اثر پڑ سکتا ہے۔ وہ نامکمل محسوس کرنے لگتے ہیں، جو مایوسی، خود اعتمادی میں کمی، اداسی اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔
خواتین اکثر حمل سے پہلے والا جسم حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ پرہیز اور ورزش شروع کر دیتی ہیں۔ مگر یہ سب خود بخود صحتیابی کی جسمانی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے ماں اور بچہ دونوں متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس دباؤ میں کئی بار خواتین خود کو معاشرے سے دور کر لیتی ہیں۔ اپنے جسم کو دیکھ کر وہ شرمندہ ہونے لگتی ہے۔ یہ حالت خواتین میں تنہائی کو بڑھا سکتی ہے۔
ڈاکٹر بھاونا برمی کا کہنا ہے کہ ’حمل سے پہلے کے جسم میں جلدی واپس آنے کا دباؤ نئی ماؤں میں تناؤ کو بڑھا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر عورت کا جسم دوسری عورت سے مختلف ہوتا ہے اور اس کی صحت یابی کی رفتار بھی دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔‘
کیا کرنا چاہیے؟
سوال یہ ہے کہ حمل سے پہلے کے جسم کے دباؤ سے نجات کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال پر ڈاکٹر کرنیکا تیواری کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کو کسی قسم کا شک ہے تو پہلے اپنے ڈاکٹر سے بات کریں۔ اپنے کھانے پینے کا پورا خیال رکھیں، اور فعال طرز زندگی اپنائیں۔‘
ڈاکٹر بھاونا برمی کا مشورہ ہے کہ ’خواتین کو اپنی حدود خود طے کرنی چاہییں۔ اپنی طاقتوں کو پہچانیں۔ کتابیں پڑھیں، اپنے آپ کو اس بارے میں آگاہ کریں، تنہا نہ رہیں، اپنے سپورٹ نیٹ ورک کو بڑھائیں اور اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کریں۔‘
Calling all healthcare professionals, medical students, and writers! Share your insights, experiences, and knowledge on our platform. Let’s craft informative articles together, shaping the future of healthcare. Connect, inspire, and enlighten our audience.